اگرچہ کرہِ ارض کی نقل و حرکت پر مسلسل نگاہ رکھنے والے سب سے موقر ارضیاتی ادارے امریکن جیالوجیکل سروے ( یو ایس جی ایس) نے ابتدا میں ہی واضح کر دیا تھا کہ پیر کو کابل تا دلی آنے والے زلزلے کی شدت مومنٹ میگنی چیوڈ سکیل پر سات اعشاریہ چھ سے زیادہ نہیں تھی مگر کوئی ٹی وی چینل چوبیس گھنٹے بعد بھی یہ سننے کو تیار نہیں کیونکہ آٹھ اعشاریہ ایک شدت کی ابتدائی اطلاعات کو درست کر لیا جائے تو پھر یہ ’پاکستان کی تاریخ کا شدید ترین خوفناک زلزلہ‘ نہیں رہے گا۔
پھر تو یہ بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ ستمبر دو ہزار تیرہ میں بلوچستان میں آنے والے زلزلے کی شدت گذشتہ روز کے
زلزلے سے ایک ڈگری زیادہ اور ہلاکتیں آٹھ سو سے زائد تھیں۔ دو ہزار پانچ کے زلزلے کی شدت گذشتہ روز کے زلزلے کے ہی برابر تھی مگر اس کا مرکز چونکہ سطحِ زمین سے چھبیس کلومیٹر گہرائی میں تھا لہذا تباہی زیادہ ہوئی اور گذشتہ روز کا زلزلہ اتنا ہی شدید ہونے کے باوجود چونکہ ایک سو چھیانوے کلو میٹر گہرائی میں پیدا ہوا ، اس واسطے سطح پر خوش قسمتی سے نقصان کم ہوا۔
بات یہ ہے کہ ’سب سے پہلے ہم نے خبر پھوڑی‘ کی دوڑ میں شامل باورچیوں کے ہاتھوں جب نشریاتی و اخباری مصالحہ ایک بار تیز ہوجائے، جب منہ سے یہ نکل جائے کہ زلزلے سے زمین پانچ منٹ تک ہلتی رہی، جب کسی چینل پر زلزلے کے صرف تین گھنٹے بعد ہی یہ راز کھل جائے کہ اس ’خوفناک ترین‘ قیامت سے ’ہزاروں گھر‘ تباہ اور بیسیوں ’بلند و بالا عمارتیں ملبے کا ڈھیر‘ بن گئیں ، جب ایک پہاڑ کے پتھر گرنے سے اٹھنے والی دھول کی تصویر کے نیچے یہ کیپشن جڑ دیا جائے کہ ’ زلزلے سے پہاڑ ٹوٹ کے بکھر رہا ہے‘ اور جب زلزلے کی خبر بریک ہونے کے صرف تیس منٹ بعد یہ ایکسکلوسیو خبر سکرین پر لہرانے لگے کہ ’ہنزہ میں کئی گلیشئیرز پگھل گئے‘ تو اس فضا میں سائنسی و عقلی منطق کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ کامن سنس کا رومال ناک پر رکھ کے پتلی گلی سے نکل لے۔
اور پھر شام کو ہر سکرین پر جب گفتگو کا سرکس شروع ہوتا ہے تو کچھ چینلوں کو تو اصلی اور جینوئن ماہرینِ ارضیات دستیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ کو نیم حکیموں پر گذارہ کرنا پڑتا ہے ۔مگر چند عظیم برہمنی اینکروں کی علمی پیاس تب تک نہیں بجھتی جب تک وہ خود بھی تکنیکی و سائنسی تالاب میں تیرنے کا شوق پورا نہ کر لیں۔
مثلاً ایک سرکردہ چینل کے پرائم ٹائم ٹاک شو میں حق الیقین سے سرشار اینکر نے تھیوری پیش کی کہ دراصل موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب سالہا سال سے گلیشیئرز پگھلنے کا جو عمل شروع ہوا اس کے سبب کرہِ ارض غیر متوازن ہوگیا ہے چنانچہ زمین کے اندر ارضیاتی پلیٹیں اس عدم توازن کے سبب بکثرت ٹکرانے لگی ہیں لہذا زلزلے پہلے سے زیادہ تباہ کن اور بکثرت ہوگئے ہیں۔
اس ’نظریہِ اینکر‘ نے کیسی آسانی سے وہ گھتی سلجھا دی جو آج تک کسی ماہرِ ارضیات کی سمجھ میں نہیں آئی ۔یعنی آسان اردو میں کرہِ ارض گویا ایک ترازو ہے جس کے دونوں پلڑوں کو متوازن رکھنے کےلیے قدرت نے گلیشیرز باٹ کی صورت میں مساوی مساوی رکھ دیے ۔ جب ایک پلڑے کے گلیشیئرز پگھلنے لگیں گے تو دوسرا پلڑا خود بخود اوپر نیچے ہو جائے گا ( بس اتنی سی بات ہے )۔
کئی اینکرز کو یہ تشویش لاحق ہوگئی کہ زلزلے سے عمارتیں اور پل جھول کیوں رہے ہیں ؟ ان کا خیال تھا کہ اس ’جھول‘ کا تعلق ناقص تعمیرات اور ٹھیکیدار کی کرپشن سے ہے ۔انہیں کوئی یہ بنیادی اصول بتانے والا بروقت نہیں ملا کہ غیر لچک دار شے کے مقابلے میں لچکدار شے جھٹکے اور بوجھ سہارنے کی صلاحیت زیادہ رکھتی ہے اور پل یا عمارت کا زلزلے کے سبب جھولنا مگر قائم رہنا خرابی نہیں تعمیراتی خوبی ہے۔
ایک چینل پر پٹی چلی ’خیبر پختون خوا کے وزیرِ اعلی نے زلزلے کا نوٹس لے لیا‘۔ میں انتظار کرتا رہا کہ اب چینل کی جانب سے یہ مطالبہ ہوگا کہ وزیرِ اعلی زلزلے کی تحقیقات کےلیے کمیٹی بنانے کا اعلان کریں اور ذمہ داروں کو معطل کریں ۔مگر یہ ہو نہ سکا۔
سوشل میڈیا کا تو خیر ذکر ہی کیا جہاں چند منٹ بعد ہی زلزلے کے اسباب میں بے حیائی، کثرتِ زنا ، کرپشن ، مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، ظلم کی فراوانی ، ناانصافی کا فروغ سمیت بیسیوں اخلاقی اسباب کے انبار لگتے چلے گئے ( کاش زیرِ زمین تخریب کاری میں ملوث ارضیاتی پلیٹیں سوشل میڈیا استعمال کر سکتیں )۔
جب آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کا زلزلہ آیا تو واقعی نہ ریاست تیار تھی اور نہ ہی میڈیا۔چنانچہ سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ ناتجربہ کاری بدحواسیوں کو جنم دیتی ہے۔ لیکن پچھلے دس برس میں مواصلاتی نظام زیادہ جدید ہوگیا ۔میڈیا بھی زلزلے اور سیلابوں کی شکل میں ڈزآسٹر رپورٹنگ کے تجربے سے کئی بار گذرا ہے ۔چنانچہ توقع تھی کہ یہ تجربہ گذشتہ روز ایک ذمہ دارانہ رپورٹنگ اور تجزیات کی شکل میں منعکس ہوگا۔ لیکن بقول میر صاحب:
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
(BBC Urdu) سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
No comments:
Post a Comment
Thank you for visiting